انکل ...
بروز منگل 19 اگست 2025 رات 7 بجکر45 منٹ
میں سستانے کے لئے سگریٹ پینے کچھ دیر رکا ویسے بھی شاہ فیصل پل جو ملت ٹاون سے جڑتا ہے پیدل آدھا کراس کر کے گھٹنوں گھٹنوں پانی سے گزر کر شمع شاپنگ سینٹر تک بڑی مشکلوں کے بعد پہنچا تھا ہلکی پھلکی پھوار ہورہی تھی تمام راستے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا رش تھا پیدل چلنے والے ادھر ادھر....... بھاگ رہے تھے سب کو اپنے اپنے گھر جانے کی پڑی تھی -
سگریٹ کے کش لگا کر اٹھا اور میں نے کالونی گیٹ شاہ فیصل کی طرف جانے کا سوچا کہ وہاں سے شاہراہ فیصل نکل جاوں گا میری نظر اس لڑکی پہ پڑی جوبمشکل اپنے آپ کو سنبھالے گھبرائ ہوئ بارش کے گھٹنوں گھٹنوں پانی میں اپنا پاوں رکھنا ہی چاہتی تھی کہ میں نے اسے آواز دی... اے وہاں گٹر ہے ... اسطرف سے جاو....جی انکل اوکے وہ میرے قریب آئ اور پھر بولی انکل کیا آپ مجھے فوجی ہاسپٹل تک چھوڑدیں گے؟ ہاں ہاں کیوں نہیں... چلو.. میں نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا اور وہ میرے ساتھ ساتھ پانی میں اتر کے چلنے لگی میں راستے بھر اس کو رہنمائ کرتا رہا کہ دیکھ کر یہاں کھڈہ ہے سا طرف سے چلو ادھر رکو میرے پیچھے چلو وغیرہ
جی انکل ۔۔۔ انکل تھینک یو...سارے رستے وہ تھینک یو... تھینک یو انکل کہتی رہی اور میں شکریہ کی کوئ بات نہیں کہتا رہا اور پھر میں خود ہی اس کو بچاتے بچاتے پانی میں گر گیا....اف وہ لمحہ وہ میرے گرنے پہ بری طرح گھبرا گئ اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے کیا نہ کرے اس نے ہمت کرکےمیرے بازو کو پکڑکےمجھے سہارا دیا میں مکمل سر تا پاوں پانی میں بھیک چکا تھا میرے ہاتھ میں فائل جس میں کچھ پرنٹس اوردس ہزار روپے کیش تھے اور بیگ تھا اور بیگ میں موبائل فون !
فائل اور بیگ میں پانی چلاگیا تھا وہ مجھ سے پوچھنے لگی انکل چوٹ تو نہیں لگی ؟ نہیں نہِیں میں ٹھیک ہوں ... سوری انکل، تھینک یو انکل ...
میں نے بیگ سے کوالٹا کرکے پانی نکالا، موبائل باہر نکالا خدا کی قدرت موبائل ورک کر رہا تھا جبکہ فل پانی میں بھیگ چکا تھا ...ہم دونوں پھر چل پڑے وہ کبھی میرے برابر کبھی آگے اور کبھی پیچھے چل رہی تھی پانی کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا کسی نا کسی طرح ہم فوجی شوکت فاؤنڈیشن ہاسپیٹل تک پہنچ گئے وہاں بھی پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا پورے ایریے کی لائیٹ بھی نہیں تھی گارڈ بھی سائیڈ میں کھڑے تھے اب وہ مجھ کوستائیش بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی اور میں اب مخمصہ کا شکار تھا کہ اسے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں تن تنہا کیسے چھوڑجاؤں؟!
آخر کار اس نے التجا کی انکل پلیز وہ جو سامنے روشنی نظرآرہی...وہاں تک اور ساتھ چلیں ...میں نے جواباً کہا چلو....
دیکھو بے بی میں نے نصیحت کی کبھی بھی کسی کے سامنے ڈر اور خوف ظاہر نہیں کرنا آجکل کے حالات کا یہی تقاضہ ہے ...جی انکل ...تھینک یو انکل ...میں اسے بتانے لگا کہ مجھے وہ سامنے والے پل پہ جانا تھا لیکن وہاں ٹریفک گاڑیاں جام ہیں مجھے اندازہ ہے میں آج اپنے گھر گلشن اقبال نہیں جا سکوں گا کیونکہ پانی کا بہاؤ بہت تیزہے ... اوہ ...اس کے منہ سے نکلا لیکن کوئ مسٔلا نہیں کبھی کبھی زندگی میں ایسا ہوتا ہے
آپ کہاں رہتی ہیں؟ جاب کرتی ہیں ؟ وہ انکل میں یونیورسٹی میں پڑھتی ہوں اور شاہ فیصل 3 میں رہتی ہوں ...میں اکاؤنٹس میں ہوتا ہوں اکاؤنٹینٹ...آج میری وائف نے کہا تھاکہ بارش کا موسم ہے چھٹی کرلیں لیکن مجھے سیلزٹیکس کے کام کرنے تھے اس لیئے چھٹی نہیں کرسکتا تھا کورنگی ویٹا ...آگیا ...2 بجے زور دار بارش شروع ہوگئی ... انکل تھینک یو...وہ ہر لمحہ بار بار کہتی تھی...میں نے دل میں ٹھان لیا تھا کہ اب میرا گھرجانا ناممکن ہی ہے تو کیوں نا اسے اس کے گھر تک ہی چھوڑآؤں
میں تو رات کاٹوں گا گھوم پھرکے سڑکوں پہ
کوئ منتظر ہوگا تم تو........ اپنے گھر جاؤ
اور پھر ایسا ہی ہوا جب ہم کالونی گیٹ سے آگے گرین ٹاؤن والے چوک پہ پہنچے تو وہاں کچھ لوگ نظر آئے جو اسٹاپ پہ کھڑے تھے وہاں بھی کوئ عورت ذات نہیں تھی
وہ رکشہ تلاش کرنے لگی دور دور تک کوئ امکان ہی نہ تھا ایسے حالات میں گھٹنوں گھٹنوں پانی میں بھلا رکشہ ؟؟ راستے بھر اس کا اپنے گھروالوں سے موبائل پہ رابطہ رہا ...وہ بتاتی رہی اب یہاں پہنچ گئ ہوں اب یہاں ...میرا موبائل کا کرسر پانی میں بھیگنے کی وجہ سے دوڑرہا تھا بڑی ہی مشکل سے اپنے گھر2 ،4 میسیج بھیجے تا کہ ان کو اطمینان ہوجائَے ...نیٹ ورک سہی کام نہیں کر رہا تھا اس دوران بچے کا فون آگیا اس کی آواز مجھے سنائ نہیں دے رہی تھی جبکہ مجھے امید تھی کہ میری آواز اس تک جا رہی ہوگی میں نے بتادیا کہ میں شمع شاپنگ سینٹر پہ ہوں پریشان نہ ہونا جیسے ہی پانی کا بہاؤ کم ہوگا روانہ ہوجاؤں گا دیر ہو سکتی ہے-
میں اپنے گھر میسیج بھیجتا رہا لیکن نیٹ ورک کی خرابی کے باعث ایک بھی نہیں پہنچا میں مطمئین میسیج تو پہنچ گئے ہونگے
وہ بچی مجھے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگی ۔۔۔اوہ میں چونک گیا ابھی بھی آپ کو اور آگے جانا ہے ؟ وہ جی ہاں...کہاں؟ وہ 3 نمبر شاہ فیصل ...میں نے بنا چوں چرا کہا پھر چلو کوئ بات نہیں ہم دونوں پھر روانہ ہو گئَے ... بارش کا پانی اور ہم دونوں رات کا سفر اور گھپ اندھیری گلیاں اور سڑک پورے علاقہ کی لائٹ نہیں تھی ہم سڑک کے کنارے کنارے چلنے کے بجائے درمیان میں چل رہے تھے مبادہ کوئ گٹر یا گڑھا نہ آجائے...آخر کار ایک جگہ ایسی آئ کہ وہاں پانی کی سطح کافی بلند تھی اور بہاؤ بہت تیز... ہم سے چلنا دشوار ہورہا تھا اس دوران ایک بندہ ہمارے قریب آیا اور ہمیں گائیڈ کرنے لگا شکل اور حلیہ سے وہ پڑھا لکھا اوراردو اسپیکنگ لگ رہا تھا اس نے ہمارا آخر وقت تک ساتھ دیا اس لڑکی سے اس نے کہا *ڈونٹ پینک* تو میں کچھ چونک سا گیا میرا مطلب ہے کہ ...وہ *ڈونٹ پینک* بول کر خود گڑبڑا سا گیا وہ بولا میرا مطلب ہے کہ یہاں پانی میں مختلف چیزیں بہتی آرہی ہیں جو پاؤں سے ٹکرا رہی ہیں اس لیَے ڈرنا نہیں لڑکی نے جی کہہ کر جواب دیا ...لڑکی اور اس کے درمیان جو بات چیت ہوئ اس سے میں مطمئین ہو گیا وہ دونوں ایک دوسرے کے پڑوسی ہی تھے لیکن اک دوسرے سے واقف اب ہوئے تھے ... وہ بولا ..اچھا آپ پی آئ اے والے انکل کے گھر رہتی ہو ...جی جی... میں وہ ...اس بندے نے اپنے گھر کی جانب اشارہ کرکے مجھے بتایا کارنر والا گھر جو ہے میں وہاں رہتا ہوں ...
میں نے اپنے موبائل میں ٹائم دیکھا اس وقت رات کے 10 بجکر15 منٹ ہو چکے تھے یعنی ہم نے ساڑھے سات بجے سفر شروع کیا تھا تقریباً ڈھائ گھنٹے سفر....یہ سفر تو شمع شاپنگ سے یہاں تک کا تھا اس سے پہلے 1 گھنٹے کا ندی پل سے شمع تک کا سفر میں اکیلے کرچکا تھا..... بہرحال ہم اس لڑکی کے گھر پہنچ گئے وہ ستائیش بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی اس بندے نے لڑکی سے کہا گیٹ تو...نوک کرو...وہ مسلسل مجھے تکے جارہی تھی پھر اس نے اپنے گھر کا گیٹ بجایا تواس کی والدہ نے گیٹ کھولا اوہ آپکا موبائل اورفائل.. میں نے بچی کے ہاتھ سے موبائل اور فائل لے لیا اسکی ممی نے باہر جھانک کے دیکھا ... اس نے اپنی ممی کو میری طرف اشارہ کر کے بتایا کہ یہ انکل ہیں جو مجھے یہاں تک چھوڑنے آ ئے ہیں ان کے گھر کے بلکل برابرایک جنرل اسٹور(شاپ) تھی میں شاپ پہ ہی رک گیا تھا اسکا پڑوسی مجھے کہنے لگا کہ آپ نے مجھے پہلے بتایا نہیں کہ آپ بچی کو یہاں تک صرف چھوڑنے آئے ...؟ وہ حیرت کے ملے جلے تاثر سے شکایتاً کہنے لگا میں نے اسے مسکرا کے دیکھا ... میں آپ کے آجانے سے اس بچی کواکیلا.. بھلا کیسے چھوڑ سکتا تھا (میرا مطلب تھا کہ نہ میں اس بندے کو جانتا تھا اور نہ وہ بچی اس کو) وہ بہت گھبرائ ہوئ تھی اور نہ ہی اس بچی نے مجھے کہا کہ انکل میں اب چلی جاؤنگی آپ چلے جائیں !!!
وہ بچی اپنے گھر میں چلی گئ اس پڑوسی بندے نے مجھ سے پانی کا پوچھا ہاں پانی پینا ہے.. شاپ سے پانی کی بوتل مجھے دلائ اور وہ بولا انکل آپ کی حالت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ویسے بھی آپ اتنی دور سے چل کر آئے۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ آپ واپس جا سکیں گے ... میں ہنسا اور بولا نہیں نہیں میں چلاجاؤں گا کوئ مسٔلہ نہیں پھر وہ واپسی کا راستہ سمجھانے لگا پہلی گلی سے سیدھا جانا پانی کم ہوگا دیکھ بھال کے جگہ جگہ کھدائ بھی ہوئ ہے کھڈے ہوں گے...وہ پھر چلا گیا میں پانی پیا اور شاپ سے بسکٹ کا پیکٹ لیا ... شاپ والے نے بھی مجھے سامان بوتل رکھنے کے لئے شاپر پکڑا دیا میرے ہاتھ پاؤں سن ہو رہے تھے موبائل شاپر میں رکھنے کے دوران پانی میں چھوٹ گیا...ہا ہا ہا شاپ والے نے کہا انکل ارے موبائل پھر گرادیا! میں ..اف... کیا کہتا ...میں نے اس کا بتایا ہوا راستہ اپنایا پھرگھٹنوں گھٹنوں پانی میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا اگلی گلی تک پہنچا لائٹ کہیں بھی نہیں تھی ایک جگہ رک کر مکان کے سامنے منڈیر پہ بیٹھ گیا... بسکٹس کھائے ،پانی پیا، کش لگائے اور پھر چل پڑا
اگلی گلی بھی پار کرلی وہاں پانی کا بھاؤ بہت تیز تھا سناٹا تھا کوئ کوئ بائیک والا اپنی بائیک گھسیٹتا ہوا گذر جاتا ...مجھے کارنر پہ ایک بلڈنگ نظر آئ وہاں شاپس تھیں بیوٹی پارلر، نان شاپ ...وغیرہ کچھ لڑکے وہاں ہی کھڑے تھے انہوں نے مجھے آواز دی... انکل احتیاط سے یہاں آجائیں پھر ایک لڑکے نے سیڑھی کے اوپرسے ہاتھ بڑھا کے سہارا دیا میں نے یہی مناسب سمجھا کہ جب تک پانی کم نا ہوجائے یہاں رک جاؤں ... انکل بے فکر رہیں پانی کا لیول کم ہونے تک یہاں رک جائیں ابھی اور آگے جانا مناسب نہیں ...میں نے اپنا موبائل بیگ سے نکالا ٹائم چیک کیا رات 11 بجکر 11 منٹ ہوچکے تھے اب مجھے صبح تک .. یہیں قیام کرنا پڑے گا- میں اپنا ذہن بنا چکا تھا میں وہیں سیڑھیوں پہ بیٹھ گیا...دوسرے لڑکے نے چھوٹے بچے سے کہا انکل سے بوتل لے کر اپنے گھر سے پانی لے آؤ انکل کو پیاس لگی ہوگی میں آدھی بوتل پانی پی چکا تھا وہ بچہ اور پانی لے آیا شکر الحمد وللہ -
میں نے ساری رات اسی مقام پہ رکنا ہی مناسب سمجھا رات کے 1 بجکر 35 منٹ ہوچکے تھے وہ سب لڑکے اپنے اپنے گھر کو جا چکے تھے اب میں تھا، رات کا گھپ اندھیرا اور پانی بہنے کا شورتھا پانی کی سطح میں کوئ کمی ہونے کا نام نہیں تھا ۔۔۔ میں خاموشی سے بِیٹھا پانی کے بہاؤ کو تک رہا تھا ... کبھی کبھی دور کہیں سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائ دے جاتی تھیں میں محفوظ تھا کیونکہ پانی کی سطح اونچی اور بہاؤ بہت تیز تھا نیند اور بھوک ندارد ... کوئ مسٔلہ نہیں
میں نے یونہی بیٹھے بیٹھے ساری رات گذاردی سحر ہونے کو ہے شب گذر گئی ... ہلکی ہلکی روشنی ہونے لگی فجرکی اذانوں کی آوازیں آنے لگیں ...پانی کا بہاؤ کم ہوچکا تھا اب پانی کی سطح بھی 2 فٹ سے کم ہوکر تقریباً 1 فٹ ہو چکی تھی میں نے موبائل میں ٹائم دیکھا 6 بجکر10 منٹ ہو رہے تھے روشنی ہوتے ہی میں گھر کی طرف پھر رخت سفر باندھا اور... کالونی گیٹ شاہ فیصل کی طرف چل نکلا امید یہی تھی کہ وہاں سے ہی رکشہ مل جائیگا راستہ میں کم اور زیادہ پانی سے گذر کے 20 منٹ پیدل سفر کے بعد کالونی گیٹ سے ذرا پہلے ہی ایک رکشہ آہی گیا نیپا برج سے پہلے اور الہ دین پارک کےپاس کا کرایہ 600 روپے طے پایا-
بلآخر تقریباً 6 بجکر 35 منٹ پہ گھر پہنچا -


Comments
Post a Comment